Monday 25 March 2019

قانون پہ عملدرآمد

قانون  پہ عملدرآمد 
میں کوئی قانون کا طالب علم تو نہیں ہوں لیکن اکثر سوچتا ہوں کہ قانون کی پابندی کرنا ایک عام آدمی کے طور پہ کتنا ضروری ہے ۔ 
کسی ریاست میں رہتے ہوئے اس کے قانون اور آئین کی پابندی ہم سب پہ لازم ہے ۔ کہیں زیادتی اور ناانصافی کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لینے والے ہمیشہ غلط ہوتے ہیں ۔ 

کسی انسان کی غلطی کی سزا اگر آپ خود سے دینا شروع کر دیں یا ذہنی طور پہ یہ سوچ لیں کہ اس کی سزا یہ ہونی چاہیے تو ہم اس وقت جُرم سے نفرت کا اظہار نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ہمیں اس وقت مجرم سے نفرت ہوتی ہے اور اسی نفرت کو ذہن میں رکھ کر ہم سزا کا تعین شروع کر دیتے ہیں ۔ طالبان  ایک سوچ ہے جو تشدد کی عکاسی کرتی ہے ۔ انہوں نے بھی یہی کیا یعنی جو سوچا اس کے مطابق دوسروں کو ڈھالنے کے لیے متشدد راستہ اپنایا اور اس کے نفاذ کے لیے لوگوں کے سرعام گلے کاٹنا جائز سمجھا گیا جس کی باقاعدہ طور پہ ویڈیو بھی بھیجی جاتی رہیں تا کہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلے اور وہ اس ڈر کی وجہ سے ہمارے ساتھ ہوں ، جب آپ کسی کا ساتھ صرف اس کے ڈر کی وجہ سے دیتے ہیں تو حقیقی طور پہ آپ اس کے اقدام کی نفی کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ غلط ہے لیکن میں کسی ڈر کی وجہ سے اس کے ساتھ ہوں اسی ڈر اور دھونس کو ڈکٹیٹرشپ کہا جاتا ہے ۔ ہم پاکستان میں رہتے ہیں جہاں ڈکٹیٹرشپ کے چار ادوار گزرے ہیں اور انہوں نے اپنی دھونس کے ذریعے معاملات کو چلانے کی بھرپور کوشش کی ، وقتی طور پہ اس کو لوگوں نے نجات دہندہ بھی قرار دیا لیکن ایسا بالکل بھی نہیں کیونکہ ڈکٹیٹر قانون پہ خود عمل نہیں کرتا تو وہ دوسروں سے کیا عمل کروائے گا وہ صرف وہی کچھ کروا سکتا جو زبردستی کروا سکے اور جو قانون اسکے مفاد میں اور اقتدار کو طوالت دے ۔ پاکستان ایک مکمل آزاد ریاست نہیں ہے خیر ان دنوں تو جو رتی برابر تھی وہ آزادی بھی ختم ہو چکی ہے کیونکہ گزشتہ دو سال میں جس طرح سے عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑائیں گئی ہیں وہ کسی سے بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ہر غیر قانونی کام کا دفاع کرنیوالے بھی ماجود ہیںاور وہ اس دفاع کو بخوبی سرانجام دے رہے ہیں ۔ میڈیا پہ پابندی  کون لگاتا ہے ؟ کون ہے جو مختلف نجی چینلز پہ دن رات سیاستدانوں کے خلاف پراپیگنڈہ کرواتا ہے تا کہ عوام کو یہ بات باور کروائی جا سکے کہ سیاستدان ہی اصل قصوروار ہیں اور ہم نجات دہندہ ۔ کیا مُلک کی اعلی عدلیہ قانون کی پابندی کرنے اور انصاف کی فراہمی میں مکمل طور پہ ناکام نہیں نظر آتی ؟ کیا ریاستی ادارے پارلیمنٹ کو مدد فراہم کرتے نظر آتے ہیں یا مداخلت کرتے نظر آتے ہیں ؟ کیا دو ہزار تیرہ اور دو ہزار اٹھارہ کے پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ صرف اتنا سوچیں جنرل ظہیرالسلام نے جو جمہوری حکومت کو گرانے کے لیے کیا اس پہ نواز شریف کو چاہیے نہیں تھا کہ کورٹ مارشل کی سفارش کرتے ؟ جنرل اسد درانی کے خلاف جو انکوائری تھی وہ بھی اب کسی کو یاد نہیں کتنے میڈیا چینلز نے اس پہ پروگرام کیے ؟  الیکشن میں جس طرح من پسند نتائج دکھانے کی راہ ہموار کی گئی ؟مشرف کو جس طرح سے عدالتی نظام سے چھٹکارا دلایا گیا اور نیب میں ریلوے کرپشن کیسز میں نامزد جنرلز  اب تک پیش نہیں ہوئے یا جس طرح سے ہوئے یہ سب قانون کی نہیں بلکہ لاقانونیت کی مثال ہیں ۔ جس دن آئین اور قانون کی پابندی عام آدمی کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور آرمی نے بھی شروع کر دی یقین مانیں یہ مُلک ترقی کرنا شروع کر دے گا لیکن اس وقت تک ترقی اور معاشرتی نظام میں بہتری صرف ایک دیوانے کا خواب ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ 

عنوان ملا ہی نہیں

عنوان ملا ہی نہیں
یہ پہلی کاوش ہے بلاگ تو نہیں کہہ سکتے لیکن یہ تحریر کو فرض سمجھ کے لکھنا ضروری سمجھا
29مارچ کو صفہ سکول اوکاڑہ کے زیراہتمام اور جنگ گروپ کے تعاون سے برین آف اوکاڑہ کے مقابلہ ہوا ..جس میں تقریری اور تحریری دونوں مقابلے شامل تھے تقریب کے اختتام پر گلوکار بلال سعید کو پرفارم کرنا تھا جب ان کی پرفارمنس کی باری آئی تو دوسرے گانے کے درمیان میں ہی فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر کی طالبات اسٹیج پہ چڑھ گئیں اور بلال سعید کو چومنا شروع کردیا ان میں سے کچھ طالبات نے موصوف کے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ بھی ثبت کیے اور سیکیورٹی اور اساتذہ نہایت تحمل سے یہ مظاہرہ دیکھتے رہے یہ تھا ایک رخ اور اب اس سے ایک مہینہ قبل جو واقعہ ہوا اسی سکول میں وہ پیش خدمت ہے
سکول کی ایک خاتون ٹیچر نے طالبات کے ایک گروپ کو تھوڑی سی نصیحت کی "بیٹا جب مرد ٹیچر موجود ہوں تو آپ اپنا سینہ ڈھانپ لیا کریں لازمی طور پہ اگر آپ سر پہ دوپٹہ نہیں لینا چاہتے" طالبات نے اس خاتون ٹیچر کی شکایت انتظامیہ کو کردی کہ "ٹیچر نے ہمیں کہا ہے آپ سکول میں حجاب کیا کریں"
صفہ سکول انتظامیہ نے اس خاتون ٹیچر کو طلب کرلیا اور اس کی خوب کلاس لی گئی حیرت کی بات یہ ہے کہ انتظامیہ میں سے دو خواتین کے ریمارکس بہت عمدہ تھے ایک خاتون نے کہا" میڈم یہ سکول ہے مدرسہ نہیں اور نہ آپ اسے مدرسہ بنانے کی کوشش کریں ہم اپنے بچوں کو دہشت گرد نہیں بنانا چاہتے"
اور دوسری خاتون نے کہا" ان بچوں کے ماں باپ کو بھی علم ہے وہ کیسے سکول آتی ہیں دوپٹہ لےکے یا اس کے بغیر اگر ماں باپ کو پرواہ نہیں ہے تو ہم ان کی عزت پہ چادر نہیں تان سکتے یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے" اور اگر آپ نے یہی کچھ کرنا ہے تو کوئی مدرسہ جوائن کر لیں"

جب سے واقعہ علم میں آیا ہے سوچ رہا ہوں کہ ہمارا معاشرہ کتنا ترقی کرچکا ہے اور ہم کتنے آزاد خیال بن رہے ہیں 

Sunday 13 August 2017

آزادی کی کہانی - نانی اماں کی زبانی

پڑھائی کی غرض سے شہر آنے کے بعد گاؤں سے تعلق ایک واجبی سا رہ جاتا- اکثریت ایسا ہی کرتی ہے میں بھی ایسا ہی نکلا کہ پلٹ کے جانا کم ہی نصیب ہوتا- پچھلے دنوں ایک صحافی نے جب میری نانی اماں کا انٹرویو کرنا چاہا تو میں نے بھی سوچا کہ نانی اماں سے کہتا ہوں کہ نانی جب آپ لوگ آئے تو کیا عالم تھا اور کیسا لگ رہا تھا - یقین مانیں جب میں نے نانی اماں سے یہ سوال کیا تو جیسے کوئی زخم کو کریدتا ہے تو ہائے نکلتی ہے کچھ ویسا ہی انہوں نے جواب دیا اور پھر کہنے لگیں "ایہہ سون بھادوں دے دو مہینے کدی نی بُھل سکدے سانوں" اور پھر انہوں نے بتایا کہ عید کا دن تھا جب فیروز پور کے ایک گاوں دولت پورہ میں نماز عید سے پہلے ہم سویاں بنا رہے تھے کہ مسجد میں اعلان کیا گیا اپنا سامان جو کچھ ساتھ لے سکتے ہیں لے لیں اور گاؤں خالی کر کے نکل جائیں - اس اعلان سے دو دن قبل میرا چچا سراج الدین جو کہ فیروز پور میں تھانیدار تھا اس نے کہا کہ حالات خراب ہیں زیورات وغیرہ شِندے مہاجن کی دوکان پہ رکھوا دیں حالات بہتر ہوئے تو واپس لے لیں گے- جب میرے چھوٹے چچا اعلان کے بعد مہاجن کی دوکان پہ گئے تو اس نے کہا کہ میں شہر جمع کروا آیا تھا دو دن بعد ہی مل سکیں گے- اور پھر ایک لوہے کا ٹرنک جو کہ فیروز پور سے پانچ روپے میں خریدا تھا اس میں جتنے کپڑے آ سکتے تھے ڈال لیے اور بیل گاڑی پہ بیٹھ گئے-ہمارے صحن میں ڈیڑھ سو من کے قریب سفید چنے پڑے ہوئے تھے اور اس کے علاوہ چاندی کے روپے جو میرے والد نے سرھانے میں چھپا کے رکھے تھے زمین میں دبا دیے کہ چند دن بعد واپس آ ہی جانا ہے نکال لیں گے- بھلا ایسے کیسے ہمارا گھر کسی اور کا ہو جائیگا ہم ایک سو بیس کے قریب لوگوں کا قافلہ نکل پڑا اور ساتھ والا سکھوں کا جو گاوں تھا انہوں نے دولت پورہ پر حملہ کر دیا لوٹ مار کی ، لڑکیوں کو اٹھا لیا  اور ہمارے خاندان کے انیس افراد شہید کر دیے گئے- قافلے کے ساتھ جو نوجوان لڑکیاں تھیں انہوں نے اپنے بال کاٹ لیے اور ہاتھ ، منہ اور پاوں پہ مٹی اور سیاہی لگا لی کہ بدصورت نظر آئیں - 
جب ہم ہیڈ سلیمانکی پہنچے تو انہوں نے ہمیں واپس بھیج دیا کہ یہاں سے آپ داخل نہیں ہو سکتے آپ لوگ گنڈا سنگھ سے داخل ہو سکتے ہیں- ہم لوگ گنڈا سنگھ کی طرف روانہ ہوئے تو میرے سسرال کے کچھ لوگ قافلے کی حفاظت کے لیے گنڈا سنگھ تک ساتھ آئے اور ہم نے پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھا- یہاں آنے کے بعد جس گاوں میں جائیں کوئی ہمیں داخل نہ ہونے دے کہ یہ لوگ قبضہ کر لیں گے -اور پھر پتوکی کے قریب ایک نہر تک پہنچے اور ڈیڑھ ماہ وہیں بیٹھے رہے حتی کہ راشن ختم ہو گیا اور اچھی اور سبز گھاس کو نمک اور پانی میں پکا کر کئی دن تک گزارہ کیا اور اسکے بعد میاں چنوں کے قریب ایک گاوں میں رہائش کی - 
گاوں کا نمبر چورانوے ای بی تھا شاید جب وہاں رہنے لگ گئے تو ایک آدمی نے کہا آپ کی جو زمین وہاں تھی اتنی ہی یہاں الاٹ ہو جائیگی اور وہ اسی چکر میں ہماری سفید گھوڑی اور ایک اونٹ لے گیا اور یہاں تک کہ آخری بار وہ کانوں کی بالیاں بھی لے گیا کہ تحصیلدار پیسے مانگ رہا ہے مزید پھر زمین نام لگائے گا-
جب دیکھا کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں مل رہا تو بوریوالہ آ گئے اور یہاں ایک زمیندار نے حصے پر زمین دے دی اور کاشتکاری شروع کر دی- میرا ایک بیٹا تیرہ سال کا تھا جسے دولت پورہ سے نکلتے ہی دفنا آئی تھی-  اور وہ رونے لگ گئیں کہ اس ملک کی خاطر ہم سب چھوڑ آئے تھے اور یہاں ہمارا حق تو دینا دور کی بات جو بچا کے لائے تھے وہ بھی چھین لیا گیا-" یہ ہے آزادی کادن جسے ہم منا رہے ہیں نانی اماں کی عمر اس وقت ایک سو دس سال کے قریب قریب ہے - لیکن ابھی بھی وہ ماشااللہ صحت مند ہیں لیکن ان کے بقول بٹوارہ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے اور یہ زخم شاید آخری سانس تک تازہ رہیں- چند دن پہلے بی بی سی اردو اور بی بی سی ہندی پر ان کا ایک نٹرویو چلایا گیا ہے- چودہ اگست والے دن اس وطن کی اہمیت اور اس کے لیے جانیں قربان کرنیوالوں کے بارے میں ضرور سوچیں - یہ مٹی یہ ملک ایسے ہی نہیں بن گیا اس کی بنیادوں میں بہت سے مسلمانوں کا خون ہے-
 یہ ان کے انٹرویو کا لنک ہےhttps://web.facebook.com/bbchindi/videos/1678856238812611/

Saturday 1 July 2017

زبان اور ہاتھ کا شر

پاکستان اور انڈیا کے درمیان فائنل میچ جاری تھا ۔ پوری قوم دعا مانگ رہی تھی کہ خدا کرے جیت پاکستان کا مقدر ہو۔ اور بالآخر پاکستان نے وہ میچ جیت لیا اور پوری پاکستانی قوم خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔ ٹاؤن شپ لاھور کے علاقے کا ایک لڑکا  جس کی عمر پندرہ سال تھی اور والدین کا اکلوتا بیٹا تھا وہ بھی چھت پر چڑھ کے رونق دیکھنے لگ گیا اور خوش ہو رہا تھا کہ ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں آنیوالی ایک گولی اس کے سر میں لگی ۔ والدین جنرل ہسپتال لاھور لے گئے لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اس کی والدہ جن کا اب دماغی توازن ٹھیک نہیں سسارا دن ایک ہی بات کا ورد کرتی ہے "خدا کرے پاکستان کدی نہ جِتے " پاکستان کدی نہ جِتے" اور محلے والے چند لوگ اس کے پاس گئے اور اس کے خاوند سے کہا کہ وطن کی محبت کا تقاضا ہے کہ یہ صبر کرے۔ کوئی بتائے گا کیسے صبر کرے کیا وہ اس بات پر غداری کی مرتکب ہے ؟ کیوں جس کی زندگی کا ایک ہی سہارا تھا وہ چھین لیا گیا اتنی بےدردی سے اچانک موت سے وہ کیسے دعا کرے گی ؟ ہم اپنے کسی بھی فوت ہوئے شخص کو بات بات پر یاد کر کے آنسو بہاتے وہ ماں جب ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھے گی کیا وہ لمحے اس کو اپنا بیٹا یاد نہیں آئے گا ۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ایک عمل ایسا ناقص اور جاہلانہ عمل کسی کی دنیا تباہ کر سکتا ہے ۔ کیونکہ ہم کو خوشی منانے کا بھی ڈھنگ نہیں ہے۔ خدارا بحیثیت انسان اس بارے سوچیں ہمارے اردگرد کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے سمجھائیں کہ ہوائی فائرنگ خوشی کے اظہار کا ذریعہ نہیں یہ کسی ماں سے اس کا بیٹا چھین سکتا ہے۔ اس کی دنیا تباہ کر سکتا ہے۔
اور ہم کسی پر بھی غداری اور توہین کا فتویٰ لگانے سے گریز نہیں کرتے ۔ ہم اپنے ذاتی یا سیاسی مفادات کی خاطر کسی کہ زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں جس کو طائف میں پتھر مار مار کر لہولہان کر دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے اوپر پتھر مارنے والوں کو بد دعا نہیں دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا کسی ایک فرقے یا ایک قوم کے لیے نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور ختم نبوت پر یقین ہی ہمارا کامل ایمان ہے لیکن اگر اس بات کی آڑ لے کر کوئی بےگناہ انسانی جان چلی جاتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ کوئی ذاتی مفاد کسی زمین کے ٹکڑے کے لیے یا سیاسی مفاد کے لیے اس قانون کی آڑ میں دوسرے پر الزام لگا کر اپنا مفاد حاصل کرتا ہے تو وہ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت محبت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے "مسلمان کبھی دھوکا نہیں کرتا" ۔ نبی کریم کی سیرت پر عمل کریں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں خود کو اخلاقی طور پر بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ انسانیت کو اپنے اندر زندہ رکھیں۔ کیونکہ قرآن پاک میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے "تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے"
اپنے ہاتھ اور زبان  کے شر سے دوسروں کو محفوظ رکھیں۔

Friday 21 October 2016

آئینی حق اور فرض

افواج کسی بھی ملک کی ہوں وہ وطن کی سرحدوں کی محافظ ہوتی ہے۔ فوج کی توجہ کا اصل مرکز جنگی مہارتیں اور اس سے متعلقہ دوسرے پیشہ ورانہ امور ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں اس مملکت خداداد پہ جمہوری حکومت نے ڈکٹیٹرز کی نسبت کم حکومت کی اور یوں مختلف امور پہ فوج کی گرفت رہی ۔ اسٹیبلشمنٹ میں کہوں گا ایسی مکڑی ہے جو ہمیشہ سے جال بننے کا کام کرتی آئی اور اس جال سے خاصا نقصان بھی ہوا۔ وقفے وقفے سے لگنے والے مارشل لا نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور فوج کو بھی سیاست کا ایک چسکا لگ گیا۔ " چھٹتی نہیں ہے کافر یہ منہ کو لگی ہوئی " طاقت کے استعمال کھیل میں بڑے بھائیوں کا پلہ ہمیشہ بھاری رہا کیونکہ ان کو مہرے آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں بےشک ان کا اچھا استعمال نہ ہو سکے۔ 1971 میں ہم نے مشرقی پاکستان کو کھو دیا اگرچہ سیاستدان اس سانحے سے بری الذمہ قرار نہیں دیے جا سکتے لیکن اصل قصور وار فوج کے وہ سینئر لوگ تھے جنہوں نے نفرت کا ایسا بیج بویا اور اس کا خمیازہ ہتھیار ڈالنے کی صورت بھگتنا پڑا ۔ اور اس کے بعد کارگل کا واقعہ، ایبٹ آباد آپریشن  آرمی پبلک سکول کا سانحہ ، نیول ڈاکیارڈ پر حملہ ناکامی کی ان گنت داستانیں لیکن کبھی بھی عوام نے اس طرح سے جواب طلبی نہیں چاہی جس طرح سے ایک سیاستدان یا سیاسی حکومت سے تقاضا کیا جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا وطیرہ ہے کہ سیاستدانوں کو اس انداز سے گندہ کریں کہ عوام یہ بات کہنے پر مجبور ہو جائے کہ فوج ہی اصل نجات دہندہ ہے لیکن کیا یہ کھیل ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ نہیں ؟ طاقت اور اقتدار کی ہوس کے اس کھیل میں ریاست کا کتنا نقصان ہے ؟ یہ کبھی کسی نے سوچا ؟
نہیں بالکل بھی نہیں
کسی میڈیا پرسن یا یا چیخ چیخ کے گلہ پھاڑنے والے کسی اینکر نے مشرف یا کیانی صاحب سے یہ پوچھنے کی جرات نہیں کی کہ سوئس اکاؤنٹس میں پیسا کہاں سے آیا؟ آرمی چیف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے ایسے کیا بزنس تھے کہ سوئس اکاؤنٹس کی ضرورت پر گئی؟ این ایل سی میں کرپشن کے ذمہ داران بریگیڈیئرز کو کیا سزا دی ؟ ان سے کیا پوچھ گچھ کی گئی ؟ نہیں سیاستدانوں پہ جتنا مرضی گند اچھالیں پروپیگنڈہ کریں ، سیاستدانوں کو برداشت کرنا چاہیے۔
اب سی پیک کو ہی لے لیں اس پہ آئی ایس پی آر نے ڈاکومنٹری بنا ڈالی اور اس کا سارا کریڈٹ آرمی کو دینے کی کوشش کی جیسے جمہوری حکومت تو کسی کام کی ہے نہیں اور نہ اس میں وزیراعظم کی کاوشوں کا ذکر؟ سیکورٹی ناکامی پہ بھی گانے ریلیز کر دیے جاتے ہیں ۔
کس ملک کی آرمی ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں پیسا لگتی ہے ؟ یا اپنے بنک یا فوڈ چین بناتی ہے ؟ ماسوائے پاکستان کے کہیں ایسا ہوتا نظر نہیں آئیگا۔
اب مہروں کی بات کریں تو خان صاحب الگ مہرہ ہیں اور طاہر القادری الگ۔ مصطفٰی کمال الگ لیکن تینوں نے وہ کامیابی حاصل نہیں کی جس کی توقع بڑے بھائیوں نے کی۔ مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے ریفرنڈم کی حمایت کرنے والے خان جی اب جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے ایسی جمہوری حکومت چاہیے ان کو جس میں وہ وزیراعظم ہوں باقی جو مرضی ہو۔
یہ سارا کھیل تماشا صرف اسلیے لگایا جاتا کیونکہ *طاقتور جمہوری وزیراعظم پسند نہیں ۔ پچھلے دھرنے کے دوران ایک بریگیڈیئر نے کہا تھا " حکومت کو رخصت نہیں کرنا بس ذلیل کرنا ہے اور ہر اس وقت ذلیل کریں گے جب نواز شریف پر پرزے نکالنے کی کوشش کرے گا"
یہ جملہ مجموعی طور پہ جمہوری حکومت کے لیے بےپناہ محبت کو ظاہر کرتا ہے۔  اسلیے تو کچھ نجی ٹی وی چینلز دن رات مصروف عمل ہیں لیکن 1999 کی نسبت اب کچھ شعور زیادہ اجاگر ہوا ہے۔ بہتر ہے کہ سارے ادارے ملکر اس ملک کے لیے کام کریں اپنی خامیوں کا ادراک کریں اپنا محاسبہ کریں تو شاید پھانسی کے دو سال بعد بری کا حکم دینے والی معزز عدالت کچھ انصاف کر سکے اور ڈی ایچ اے کے لیے مزارعین کی زمینوں پہ قبضہ بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
انتشار کی سیاست کی بجائے تعمیری اور تنقیدی سیاست ہو جو ملک کو بہتری کی جانب گامزن کرے۔ باقی آئین کی حفاظت کی قسم کھانیوالے اگر صحیح معنوں میں حفاظت کریں تو نہ کوئی بھٹو پھانسی چڑھے گا نہ کوئی نواز شریف جلا وطن ہوگا اور نہ کسی کے کمر کے بل دبئی جا کے نکلیں گے۔

Saturday 3 September 2016

انسان نے ترقی کر لی ہے ؟

انسان نے ترقی کر لی ہے ؟
بات پہ بات لوگ محاورہ استعمال کرتے ہیں "دنیا چاند پہ پہنچ گئی ہے اور آپ ابھی یہیں تک ہیں" لیکن کیا صرف سپیڈ کے بڑھنے کو ہم ترقی کہہ سکتے ہیں ؟ کیا منٹوں کا کام سیکنڈوں میں کرنے کو ہم ترقی کہہ سکتے ہیں ۔ ترقی ہوئی یا تنزلی ؟ پہلے انسان آپس میں لڑتے تو پھر بھی بچنے کی امید ہوتی تھی لیکن اب آپ سامنے والے کو گولی مار سکتے ہیں اور وہ اپنے دفاع میں کچھ نہیں کر سکتا ۔
انسان کا وحشی پن تو ویسے کا ویسے ہی ہے ۔ ابھی بھی قتل کرتا ہے ۔ زنا بالجبر کرتا ہے آئے روز اخبار میں خبر سننے کو ملتی ہے "پانچ سال کی بچی زیادتی کے بعد قتل " کیا یہ انہونی نہیں ہو رہی ہیں انسان پہلے بھی ایسا تھا اب بھی ایسا ہی ۔  وحشی درندہ ، جاہل ۔۔
تو صاحبو اس تنزلی کو ترقی نہ کہیں ۔ ترقی تب ہو گی جب انسانی رویے بدلیں گے جب تک یہ نہیں ہوتا ترقی نہیں ہے۔
پہیے کی ایجاد نے سپیڈ بڑھا دی ۔۔انسان جذبات سے بالاتر ہوتا گیا اور کسی مشین کی طرح کام کرنے لگا ۔ ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے دوسروں کے لیے تو درکنار ہمارے پاس تو اپنے لیے بھی وقت نہیں ہے ۔ ایک بےسمت دوڑ لگا رکھی ہے سمت کا تعین نہیں کر پایا بس دوڑتا جا رہا ہے ۔
ذرا سوچیے انسان پہلے کی نسبت زیادہ دغاباز ہو گیا مکر و فریب میں تیز ہو گیا لیکن ہے وہیں کا وہیں جہاں پہ تھا ۔ تو بدلا کیا ہے آج لاھور میں اس وقت ایک رنگا رنگ تقریب جاری ہے کل مردان میں اتنے لوگ شہید ہوئے ہیں اور ایک بچہ آج دم توڑ گیا ایمبولینس کو راستہ نہ ملا ٹریفک میں پھنس گئی تو وہ جو راستہ نہیں دے رہے تھے کیا وہ انسان نہیں تھے کیا ان کے بچے نہیں اگر اس بچے کی جگہ حکمران یا اپوزیشن طبقے کے کسی فرد کا بچہ ہوتا ۔۔شہباز شریف ۔عمران خان ۔شاہ محمود یا کسی اور فرد کا بچہ ہوتا تو تب بھی یہی کچھ ہوتا نہیں  ایک قیامت برپا ہوتی ۔میڈیا چیخ رہا ہوتا اینکرز مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہوتے ۔ لیکن بات انسانی جان کی نہیں بات یہ ہے کہ مرا کون ہے غریب ہے تو خیر ہے امیر ہے تو رویے بدل جاتے ہیں ۔ یہ تو تب بھی تھا جب انسان لباس کی صورت میں درختوں کے پتے استعمال کرتا تھا۔  اتنی صدیوں کا سفر کر کے وہیں پہ کھڑا جہاں سے چلا تھا۔ ترقی نہیں ہوئی ابھی صاحبو صرف سپیڈ بڑھ گئی ہے اور تنزلی ہوئی ہے ۔
انسان ویسے کا ویسا ہی وحشی درندہ جاہل

Friday 18 September 2015

تم کیا ہو

آج جمعہ کی نماز کی دوران شیخ صاحب خطبہ فرما رہے تھے چند ایک سوال انہوں نے ہم سے کیے جو یقینی طور پہ میرے دل میں بھی تھے
کیا نبی کریم صلی اللہ وآلہ وسلم بریلوی تھے، دیوبندی تھے ، شیعہ تھے یا حنفی تھے اور ان کے صحابہ اکرام بھی انہیں فرقوں سے تعلق رکھتے تھے
یا وہ صرف مسلمان تھے
کیا کسی حدیث میں یا کسی صحابی نے مسجد کا نام فرقے کے نام پہ رکھا ہو یا امام بارگاہ کا تصور حضرت علی نے دیا ہو ؟ کیا ہے کون ہو تم صرف فساد کی جڑ
تفرقہ ڈالنے والے ، نفرتیں پیدا کرنیوالے
تمھیں مسلمان ہونا چاہیے وہ نہیں ہو باقی سب کچھ ہو
اس فرقہ بندی نے سوا تکبر کے کیا دیا ہمیں جس کسی سے سوال کرو وہ یہ جواب دے گا۔
" میں کٹر بریلوی ہوں جی"
اچھا میں کٹر دیوبندی ہوں"
لو میں تو کٹر شیعہ ہوں جی"
کوئی نہیں کہے گا ہم مسلمان ہیں فرقہ اہمیت رکھتا ہے شاید مذہب نہیں
قرآن اور حدیث میں جو کچھ کہا گیا وہی قابل عمل ہے اور ہونا چاہیے تب ہی ہم نجات پا سکتے ہیں اور یہ تکبرانہ فعل اور منافرت پھیلانے کے کام سوا نفرت کے کچھ نہیں دیں گے
اگر کوئی تمھاری غلطی کی نشاندہی کرے تو اس کو بتاو کہ میں اپنی اصلاح کروں گا نہ کہ اس کو اس کی برائیاں گنوانا شروع کردو ۔ الزام برائے الزام نہ کھیلیں اصلاح کا پہلو تلاش کریں اور دوسروں کے عیب کی پردہ پوشی کریں اچھالیں نہیں ۔
اللہ نے قرآن کریم کی صورت اپنا کلام نازل کیا اسوہ حسنہ اور احادیث ہمیں اس کی تشریح بتاتی ہیں۔ اور ایک بات اللہ نے مسجدوں کو آباد کرنے کا کہا ہے امام بارگاہ یا دیوبندی مسجد نہیں کہا ۔ حسین  سے محبت ہے تو حسین کے نانا کی سنت اور حدیث پہ عمل کرو اس کے صحابہ کی عزت کرو صرف مسلک کی خاطر اللہ کے محبوب کو ناراض نہ کرو نبی وہی ہیں اور اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاقیامت اس بات کو رگ رگ میں  جذب  کرلو کہ نجات صرف نبی کریم کی پیروی اور اللہ کی اطاعت میں ہے
یہ باتیں لکھنے کا مقصد کسی بھی فرقے کی دل آزاری کرنا نہیں مقصود چند ایک سوال تھے بس کہ مسلمان بنیں ہو سکے تو فرقہ کو اہمیت نہ دیں اللہ اور اس کے نبی کریم صلی اللہ وآلہ وسلم کی بات مانیں
اللہ ہم سب کو ہدایت دے اورنفرت کے جو بیج ہم بو چکے کسی طرح وہ نفرت کی فصل غرق ہو جائے
آمین ثم آمین